امثال القرآن اردو Description
اما بعد ! حضرت ابو ہریرہ ہیلی کنونی راوی ہیں کہ رسول اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ " بے شک قرآن کریم پانچ وجوہ پر نازل ہوا ہے، حلال ، حرام ، محکم، متشابہ اور امثال پر، پس تم لوگ حلال پر عمل کرو اور حرام سے اجتناب کرد، محکم کی اتباع اور پیروی کرد، مشتا بہ پر ایمان لاؤ اور امثال سے عبرت و نصیحت حاصل کرو۔ (سنن البیهقی) اس حدیث پاک سے واضح ہوتا ہے کہ قرآنی تمثیلات اور تشبیہات سے اصل غرض اور اصل مقصود عبرت و نصیحت کا حاصل کرتا ہے کہ انسان ان میں غور و فکر کر کے دنیا کی حقیقت ، اس کی نا پائیداری اور زوال وفنا کو سمجھتے ہوئے خدائے وحدہ لاشریک پر ایمان لائے اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک و سیم بنانے سے احتراز کرے۔ شیخ عز الدین می فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں امثال اس لیے بیان کی ہیں تا کہ اس سے بندوں کو یاد دہانی اور نصیحت کا فائدہ حاصل ہو، چنانچہ منجملہ " امثال کے جو باتیں اجر وثواب میں تفاوت یا کسی عمل کے ضیاع یا کسی مدح و ذم وغیرہ امور پر مشتمل ہیں۔ وہ احکام پر دلالت کرتی ہیں ۔ " ( الاتقان فی علوم القرآن ج ۳ ص ۲۹۷)بعض اہل علم کہتے ہیں کہ " قرآن حکیم کی ضرب الامثال سے بہت ہی باتوں کا فائدہ حاصل ہوتا ہے، مثلاً وعظ وتذکیر ، ترغیب و تحریص اور عبرت پذیری تقریر و تاکید مراد کو تم مخاطب کے قریب کرتا اور مراد کو محسوس صورت میں پیش کرنا۔ اس لیے کہ امثال، معانی کو اشخاص کی صورت میں نمایاں کرتی ہیں، کیونکہ اس میں مخاطب کے زہن کو حواس ظاہری کی امداد ملتی ہے، ذہن میں بخوبی نقش ہو جاتی ہے۔ اسی لیے ضرب المثل کی فرض خفی کو بجلی اور غائب کو امر مشاہد کے ساتھ مشابہت دینا قرار دیا گیا ہے اور قرآن کی مثالیں اجر کے تقاوت کے ساتھ بیان پر مشتمل ہیں اور مدرج وزم، خواب و عقاب مجھم و حقیر اور احقاق و ابطال پر بھی معمل ہوتی ہیں۔"امام ابوالحسن اور دی ہے جو کبار شافعیہ میں سے ہیں، انہوں نے علم الامثال کے موضوع پر مستقل کتاب تصنیف فرمائی ہے جس کا نام امثال القرآن ہے۔ امام زمہشری کہتے ہیں کہ تمثیل کا طرز اختیار کرنے سے مقصود صرف یہ ہے کہ معانی کو کشف کیا جائے اور تو ہم کو مشاہد سے قریب کیا جائے، چنانچہ اگر ممثل لہ تقسیم المرتبت ہو تو مثال بھی اس کے مثل ہوگی اور اگر مثل یہ حقیر ہو تو مثال بھی اسی کےمثل حقیر ہوگی ۔"قرآن کریم اور دیگر تمام آسمانی کتب میں ضرب الامثال کا کثرت کے ساتھ استعمال ثابت ہے، انجیل کی سورتوں میں سے ایک سورت کا نام ہیں سورۃ الامثال ہے، نیز رسول اللہ میں عالم اور دیگر حکماء کے کلام میں بھی ضرب الامثال یہ کثرت موجود ہیں۔ ہر حال احقر نے ریاض الجنہ میں اس کتاب کا آغاز کرتے ہوئے مختلف مستند ترین کتب تفسیر سے امثال القرآن کا یہ مجموعہ مرتب کیا ہے، جن میں روح المعانی، مدارك الشريل تفسير حازن تفسير كبير، البحر المحيط معارف القرآن (مولانا محمد ادریس کاندھلوی) معارف القرآن (مولانا مفتی محمد شفیع تفسير ابن كثير، سیر قرطبی، تفسیر مظهری تفسیر عزیزی نكات القرآن، اسباب النزول و غیره سرفہرست ہیں۔ اردو تفاسیر میں شیخ المحدثین مولانا محمد ادریس کاندھلوی کی بلند پایہ تفسیر معارف القرآن سے احقر نے کافی حد تک استفادہ کیا ہے اور اس تفسیرکو بے مثال اور اپنے موضوع پر بہت حد تک جامع پایا ہے۔ اللہ تعالی ان کی قبر کو منور فرما ئیں اور بندہ عاجز کو اس مجموعہ کے تیار کرنے پر اجر آخرت عطا فرمادے اور اس کو اپنی بارگاہ رب الصمد میں قبول فرمائے اور لوگوں کے لیے نافع بنائے نیز ہمارے قابل احترام دوست جناب مولانا محمد ناظم اشرف صاحب مدظلہ کو بھی اس مبارک کتاب کی نشر و اشاعت پر اجر جزیل عطا فرمائے اور انکی دیگر تمام دینی خدمات کو بھی شرف قبولیت سے نوازے اور آئندہ بھی اپنے خاص فضل و کرم سے دین کا صحیح معنی میں خادم بنائے ۔ آں موصوف کی تحریک اور تجمیع سے ہی امثال القرآن“ جیسی بے مثال کتاب اس وقت محترم قارئین کے ذوق مطالعہ کا حصہ بن رہی ہے ۔ آمین ۔ از ابوالحسان خالد محمود عفا عنه الغفور
مدرس) جامعہ اشرفیہ نیلا گنبد لاہور
۱۳ رمضان ۱۴۲۸ھ
۲۶ ستمبر ۲۰۰۷
مدرس) جامعہ اشرفیہ نیلا گنبد لاہور
۱۳ رمضان ۱۴۲۸ھ
۲۶ ستمبر ۲۰۰۷
Open up